گفتار کے غازی

ایک زمانہ تھا جب مجھے اقبال کی بانگ درا کا آخری شعر بہت پسند تھا۔ اس کی وجہ شائد یہ تھی کہ میں ان دنوں گفتار کے غازیوں میں گھرا ہوا تھا۔ یہ لوگ باتیں بہت بناتے ہیں مگر ان کو عملی جامہ نہیں پہناتے۔ میرے والد ان کو شائد منافق کہیں۔

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا
تر آنکھیں تو ہو جاتیں ہیں، پر کیا لذت اس رونے میں
جب خون جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

Published
Categorized as Urdu Post

By Zack

Dad, gadget guy, bookworm, political animal, global nomad, cyclist, hiker, tennis player, photographer

1 comment

  1. علامہ اقبال ایک فلسفی تھا۔ اس نے ستّر برس پہلے جو تحریر کیا۔ یوں لگتا ہے کہ آج کے لئے لکھا تھا۔علامہ اقبال کو منافقت پسند نہ تھی۔ ان وقتوں میں تو شاید اتنی منافقت نہ تھی مگر آج تو دنیا کا تقریبا سارا کارو بار ہی ( نجی ہو یا اجتمائی) منافقت کے دوش پروان چڑھ رہا ہے۔ غربت کو ختم کرنے کے نام پر غریب کو ختم کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی ختم کرنے کے بہانے کھلے عام اصول پرستوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے۔ روندی یاراں نوں۔ ناں لے کے بھراواں دے

    یار لوگوں نے منافقت کا بہروپ ہی بدل دیا ہے۔ اب اس کا نام “معاملہ فہمی”۔ “حکمت عملی”۔ فراست”۔ “چھریرا پن”۔ “ذہانت” وغیرہ رکھ دیا ہے۔ اور جو کوئی منافقت نہ کرے اسے “بے وقوف” کا خطاب دیا جاتا ہے۔ حال بایں جا رسید کہ دفتر ہو تو منافق کامیاب اور جلد ترقیاں پانے والا۔ سیاست ہو تو سب سے بڑا منافق سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے۔ کچھ استثناء تو بہر حال ہوتا ہی ہے۔

Comments are closed.