خدا کا دیس نکالا

پاکستان میں عام طور سے اللہ کے لئے خدا کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ مگر کچھ سالوں سے ایک مہم چلی ہوئی ہے کہ خدا کو اردو زبان سے نکال دیا جائے۔ کچھ مسلمان چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کا لفظ استعمال کریں اور انگریزی میں God اور اردو میں خدا کہنا چھوڑ دیں۔ ادھر آپ کے منہ سے “خدا حافظ” نکلا نہیں اور ادھر یہ حضرات آپ پر حملہ‌آور ہوئے کہ “اللہ حافظ” کہا کرو۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ خدا فارسی کا لفظ ہے اور اللہ عربی کا۔ پھر اللہ قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ اس لئے صرف اللہ ہی صحیح ہے۔ شاید یہ نہیں جانتے کہ قرآن عربی میں اس لئے ہے کہ وہ عربوں پر اتارا گیا۔ اور عربوں میں اللہ کا لفظ اسلام سے پہلے کا ہے۔ اگر زبان ہی کی بات ہے تو پھر ہم خدا کو اس کے عبرانی نام سے کیوں نہیں پکارتے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اپنی مادری زبان استعمال کرنا پسند کرتے ہیں اور خدا سے اگر آپ تعلق رکھنا چاہیں تو اپنی زبان میں اس کا نام لینے میں کوئی حرج نہیں۔

خدا کے خلاف اس مہم کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ یہ مسلمان ان لوگوں کی بات سچی کر رہے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا اللہ تورات اور انجیل کا خدا نہیں ہے۔ یہ فرق پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے جب اسلام کے اصولوں کے تحت ایک ہی خدا ہے۔ کیا اس سے فرق پڑتا ہے کہ ہم اسے اللہ کہیں یا خدا یا God ؟ آپ کا کیا خیال ہے؟

When I was growing up in Pakistan, the goodbye greeting there was “Khuda Hafiz”. However, in recent years, some Muslims have taken it upon themselves to banish the Persian word “Khuda” and the English “God” from the Pakistani/Muslim vocabulary. They want everyone to say “Allah” for God. It wouldn’t be a problem if they weren’t campaigning actively for everyone to stop using “God” or “Khuda.”

I am not sure why they prefer “Allah” other than the fact that it is an Arabic word. While these guys point to the Quranic origin of “Allah”, they forget that the word “Allah” predates Islam and Quran in the Arabic language.

In my opinion, using one’s own language for “God” shouldn’t be a problem. Forcing everyone to use “Allah” has side-effects too: It puts these guys on the same side as those in the West who argue that the God of the Quran is not the same as that of the Bible.

By Zack

Dad, gadget guy, bookworm, political animal, global nomad, cyclist, hiker, tennis player, photographer

56 comments

  1. عزیز وقاص
    چلو اچھا ہوا غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔ اور ہجے کی غلطی تو بڑے بڑوں سے ہو جاتی ہے یہ کوئی ایسی بات نہیں۔
    عزیز زکریا
    کوئی مسئلہ نہیں مگر میری بات پر کبھی ٹھنڈے دل سے غور ضرور کرنا۔
    سلام وعلیکم و رحمۃ اللہ

  2. مدینہ ظلمت شب کی نذر ہوچکاہے ، مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت خواب غفلت میں پڑی آرام کی نیند سورہی ہے رات کا وحشت انگیز سناٹا داماد رسول (ص) کے لبوں کی جنبش پر کان لگائے ہوئے ہے وہ کہ جن کو ان کے گھر میں اکیلا کردیاگیاہے جو شہر میں بھی تنہا ہیں اور گھر میں بھی ، رسول اسلام (ص) کی جدائی اور ان کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کا درد فراق سینے پر لئے کسی پہاڑ کی مانند فاطمہ(س) کی تربت پر بیٹھے ہوئے ، غمگین و افسردہ تاریکی شب سے زمزمہ کررہے ہیں ۔ لگتاہے الفاظ علی (ع) کا ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں ، لبوں کی جنبش ایک طویل سکوت میں تبدیل ہوجاتی ہے قبر فاطمہ (س) سے اٹھتے ہیں اور نسیم نیمۂ شب کے جھونکوں کے سہارے چند قدم بڑھاتے ہیں اور پھر قبر رسول(ص) پر بیٹھ جاتے ہیں : خدا کے رسول آپ کی چہیتی کے فراق نے میرا صبر مجھ سے چھین لیا اور میرے بس میں آپ کی پیروی کے سوا جو میں نے آپ کی جدائی میں تحمل کی ہے ، کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ میں نے جس وقت آپ کو آپ کی لحد میں آرام کے لئے لٹایاتھا آپ کی مقدس روح میرے گلے اور سینے کے درمیان سے نکلی ہے ( جی ہاں اب یہ نیلگوں آسمان اور خاکی زمین کس قدر پست نظر آنے لگی ہے میرا غم ، غم جاوداں بن گیاہے ، راتیں اب جاگ کر بسر ہوں گی اور میرا غم ، دل میں ہمیشہ باقی رہے گا یہاں تک کہ وہ گھرجہاں آپ مقیم ہیں خدا میرے لئے بھی قرار دیدے میرا رنج دل کو خون کردینے والا اور میرا اندوہ (دماغ کو) مشتعل کردینے والاہے ۔ کس قدر جلد ہمارے درمیان جدائی پڑگئی ، میں اپنا شکوہ صرف اپنے خدا کے حوالے کرتاہوں، اس بیٹی سے پوچھئے گا وہ بتائیں گی کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ دل کے درد آگ کی مانند سینے میں شعلہ ور ہوتے ہیں اور دنیا کے سامنے اس کے کہنے اور شرح کرنے کی راہ نظر نہیں آتی لیکن اب وہ کہیں گی اور خدا انصاف کرے گا جو بہترین انصاف کرنے والاہے ۔ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ آپ کا سن مبارک اکثر مورخین نے صرف اٹھارہ سال لکھاہے اٹھارہ سال کی مختصر لیکن برکتوں اور سعادتوں سے سرشار عمر ، اس قدر زیبا ، پر شکوہ اور فعال و پیغام آفریں ہے کہ اب تک آپ کی ذات مبارک پر بے شمار کتابیں اور مقالے محققین قلمبند کر چکے ہیں پھر بھی ارباب فکر و نظر کا خیال ہے کہ اب بھی سیدۃ النساء العالمین کی انقلاب آفریں شخصیت و عظمت کے بارے میں حق مطلب ادا نہیں ہوسکاہے آپ کے فضائل و کمالات کے ذکر و بیان سے نہ صرف ہمارے قلم و زبان عاجز و ناتواں ہیں بلکہ معصومین کو بھی بیان و اظہار میں مشکل کا سامنا رہاہے ۔ پھر بھی علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحارالانوار کی چھٹی جلد میں معصومۂ عالم کی ولادت سے متعلق احادیث و روایات میں نقل شدہ جن تمہیدوں اور تذکروں کو قلمبند کیاہے وہ خود ایک مبارک و مسعود وجود اور غیر معمولی انسان کے ظہور پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس طرح کی روایات حتی اہلبیت پیغمبر(س) میں بھی کسی اور کے لئے نقل نہیں ہوئی ہیں ۔ خانۂ وحی و رسالت میں جس وقت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تشریف لائی ہیں ، حضور اکرم (ص) اولاد نرینہ سے محروم تھے خود یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ نبی اکرم (ص) کو خدا نے کوئی بیٹا طول عمر کے ساتھ کیوں عطا نہیں فرمایا جو بھی بیٹے دئے بچپنے میں ہی خاک قبر میں پہنچ گئے ۔ حتی ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب بعثت کے بعد قریش کے اسلام دشمن کفار و مشرکین نے آپ کو ” ابتر” اور لاولد ہونے کا طعنہ دینا شروع کردیا اور کہنے لگے آپ تو ” بے جانشین ” اور ” بے چراغ ” ہیں ۔ زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ بیٹیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے ۔ ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا (س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام (ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کردئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورۂ کوثر نازل کردیا ۔ ” اے نبی تو رسول اکرم (ص) نے جواب دیا : ” فاطمہ انسانی لبادہ میں ایک حور ہیں ” معصومۂ عالم کی زندگی کے آخری ایام میں ، ام المؤمنین جناب ام سلمہ ان کی ملاقات کو آتی ہیں ، احوال پرسی کرتی ہیں اور ام المصائب حضرت زہرا (س) جواب میں فرماتی ہیں : میرا حال یہ ہے کہ بابا پیغمبر اسلام (ص) کے فراق نے غم و اندوہ اور ان کے وصی پر کئے جانے والے مظالم نے الم و افسوس میں گھیر رکھاہے ، خدا کی قسم لوگوں نے ان کی حرمت کو پارہ پارہ کردیاہے اور ان کے مقام امامت و رہبری کو کتاب خدا کی تنزیل اور نبی خدا کے ذریعے کی گئی تاویل کے خلاف ان سے چھین لیاہے ۔ خدا کی قسم اگر خلافت کی زمام جس طرح کہ خدا کے رسول (ص) نے ان کے ہاتھوں میں دی تھی ، اگر ان کے ہاتھ میں رہنے دیتے اور ان کی اطاعت و پشتپناہی کرتے تو وہ ان کی بڑی ہی نرم روی سے راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتے اور فلاح و نجات کے صاف و شفاف شیریں چشمے سے ان کو سیراب کردیتے ۔ نبی اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) کو ملت اسلامیہ کی عام قیادت سے محروم کردینا اور اسلامی معاشرہ سے اس کی مادی و معنوی رفاہ و فلاح چھین لینا کتنا بڑا تاریخی ظلم ہے جو پوری عالم بشریت پر کیاگیاہے ۔ لیکن اس کو ، اس وقت صرف حضرت زہرا (س) نے سمجھا اور محسوس کیا ۔ اور جب ایک سننے والا ملا تو ام المؤمنین ام سلمہ کے سامنے اس کا اعلان کردیا۔ جی ہاں ! ایسے میں نبی اکرم (ص) کی بیٹی نے دو پہلوؤں سے اپنی جد و جہد شروع کی ، ایک طرف اسلامی حقائق سے پردہ اٹھاکر ” ولایت” کے حقیقی مفہوم و مطالب سے لو

  3. سید: یہ کیا کہانیاں لکھی ہیں آپ نے؟ آپ کی اتنی لمبی تحریر کا موضوع سے کیا تعلق ہے؟

  4. ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ جو سب کمنٹس اوپر موجود ہیں نتیجہ ہے ایک پوسٹ کے ، سب جانت ہیں کہ سچا مسلمان کبھی بھی ایسی فضول بات نہیں کرے گا کہ اللہ کہو خدا حاٖظ نا کہو ۔۔ میں نے اپنی زندگی میں گر پایا ہے تو ایک مسلمان کو ہمیشہ نماز قاءم کرنے اور اچھے عمل کرنے کی تبلیغ کرتے ہوے

  5. ALLAH aur KHUDA ke alfaz ki bahas ka aam awaam ul naas ko shar-un koi Haq nahee pohanchta. 73 Firqon se sirf ak Firqa Jannat may jaey gaa. KHUDA ka inkaar kernay walay apnay firqay ka naam bataeyn? may aap ko us firqay kay waazeh Kufriaat hawalon ke sath bata doonga.
    Kia aap Wahabi molvion ki gustakhana ebaraat nahee jaantay…..Kia aap nay “HUSSAM-UL-HERMAIN” nahee padee hay jis may Ulma-e-Hermain ne Deobandi Ulma per KUFER ka Fatwa dia hay…..wait………!

Comments are closed.