پاسپورٹ اور مذہب

پاکستان کی مذہبی جماعتیں آجکل اس بات پر جذباتی ہو گئی ہیں کہ پاکستانی پاسپورٹ سے مذہب کا کالم نکالا جا رہا ہے۔ بی بی سی اس بارے میں لکھتا ہے۔

پاکستان میں مختلف مذہبی و سیاسی جماعتیں نئے پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کو خارج کئے جانے کے فیصلے کے خلاف جمعہ کو یوم احتجاج منا رہی ہیں۔

مساجد میں جمعہ کے اجتماعات میں حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کانشانہ بنایا جائے گا اور مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے جائیں گے۔

حکومت نے چند مہینے پہلے نئے پاسپورٹ جاری کرنے کا سلسلے شروع کیا جو مشین کے ذریعے پڑھے جا سکتے ہیں۔ ان پاسپورٹوں میں لوگوں سے ان کے مذہب کے بارے میں نہیں پوچھا گیا۔

مذہبی جماعتوں نے اس حکومتی فیصلے کو ملک کو ’لادینی ریاست بنانے کی ایک کوشش‘ قرار دیا ہے۔

جماعت اسلامی کے ترجمان امیر العظیم نے کہا ہے کہ ملک بھر میں ایم ایم اے کے قائدین احتجاجی مظاہروں میں شرکت کریں گے اور خطاب بھی کریں گے۔

یوم احتجاج منانے کا فیصلہ ایک ہفتے قبل اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس میں کیا گیا تھا اور اس کا اعلان قائد حزب اختلاف اور چھ دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا تھا۔

اس اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی تھی۔

اس اجلاس میں کہاگیا تھا کہ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے دباؤ پر خارج کیا گیا ہے۔

پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے تیس سال پہلے جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو غیرمسلم قرار دیدیا تھا۔

جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انہیں غیر مسلم قرار دیا جاتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کی صورت میں جماعت احمدیہ کے لوگوں کو واضح طور پر غیر مسلم لکھا جاسکتا ہے اور ان کی بطور غیر مسلم شناخت واضح ہو سکتی ہے۔

اس سلسلے میں حزب اختلاف کی ایک بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے اس حکومتی فیصلے کی حمایت کی ہے اور وہ دعوت کے باجود آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس میں شریک نہیں ہوئی تھی اور پیپلز پارٹی کے ترجمان نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کے ختم کیے جانے کے حق میں ہے۔

دوسری طرف حکمران مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین یہ بیان جاری کر چکے ہیں کہ پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کا موجود رہنا ضروری ہے۔

نیا پاسپورٹ ICAO کی تجاویز کے مطابق تیار کیا جا رہا ہے۔ لہذا اس میں مذہب کا خانہ نہیں ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پاسپورٹ میں مذہب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ پاسپورٹ کا مقصد بیرون ملک سفر ہے۔ دوسرے ملکوں کو کیا پرواہ کہ کوئی پاکستانی مسلمان ہے کہ نہیں۔ کچھ مذہبی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ نئے پاسپورٹ کے نتیجے میں احمدی سعودی عرب حج یا عمرہ کرنے جا سکیں گے۔ مگر یہ تو سعودی حکومت فیصلہ کرتی ہے کہ کون ان کے ملک میں داخل ہو سکتا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ کا اس سے کیا تعلق؟ ایک اور بات واضح ہے کہ پاکستان کے اسلامی سیاستدانوں میں احمدیوں کے خلاف کھلا تعصب پایا جاتا ہے۔

اگر پاکستان مذہبی اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کرنا بھی چاہتا ہے تو اس کے لئے شناختی کارڈ موجود ہے پاسپورٹ استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میری نظر میں تو اقلیتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا برا رویہ بالکل غلط ہے اور پاسپورٹ یا شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

POSTSCRIPT: For those who can’t read Urdu, this post is about the stupid protests over the removal of the “religion” column from the Pakistani passport. Here is a BBC News article about it in English.

By Zack

Dad, gadget guy, bookworm, political animal, global nomad, cyclist, hiker, tennis player, photographer

4 comments

  1. Nida: The font your browser uses to display Urdu depends on which fonts are installed on that machine. I have assigned the following fonts to my Urdu text (in order of decreasing priority):

    “Nafees Web Naskh”, “Urdu Naskh Asiatype”, tahoma, “Arial Unicode MS”, arial, “Lucida Sans Unicode”, georgia, verdana, sans-serif

    If you are using a regular Windows machine, then it would use Tahoma which doesn’t look good. You can install these Urdu fonts which will make my Urdu text look somewhat better.

  2. پاکستانی پاسپورٹ میں مذہب واپس

    اکتوبر میں جب پاکستانی پاسپورٹ بین الاقوامی معیار پر تبدیل کیا گیا تو اس میں سے مذہب کا خانہ نکال دیا گیا۔ اس پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو تکلیف ہوئی۔ انہوں نے اس قدم کے خلاف انتہائی نامعقول دلائل…

Comments are closed.