زنا، حدود اور ڈی این اے

شیپر کے ذریعے مجھے ایک مقدمے کا پتہ چلا جس میں پنجاب ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ زنا کی حد کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج بطور ثبوت پیش نہیں کئے جا سکتے۔

قصہ ایک شخص کا ہے جو بیرون ملک مقیم تھا۔ اس کی بیوی پاکستان میں تھی۔ جب ان کے ہاں بیٹی ہوئی تو شوہر کو شک تھا کہ بیٹی اس کی نہیں۔ ڈی این اے ٹیسٹ سے اس کا شک درست ثابت ہوا۔ مگر عدالت نے فیصلہ دیا کہ زنا کی حد نافذ نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے لئے چار عینی شاہد درکار ہوتے ہیں۔ شیپر اور نبیل کا خیال ہے کہ آج کے دور میں حد کے ثبوت کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ خیال رہے کہ پاکستان کے حدود آرڈیننس کے مطابق زنا کی سزا ایک شادی شدہ شخص کے لئے سنگسار کرنا ہے۔ ان کے علاوہ میرے والد اور شعیب صفدر نے بھی اس خبر پر تبصرہ کیا۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ زنا کی حد قرآن شریف میں سو کوڑے مقرر کی گئی ہے۔ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کا ذکر حدیث میں آتا ہے۔ لہذا علماء میں کچھ اختلاف ہے کہ شادی شدہ زانی کو سو کوڑے مارے جائیں یا سنگسار کیا جائے۔ زنا کے ثبوت کے لئے علماء نے چار عینی گواہوں کی شرط رکھی ہے۔ میرا یہ دعوی ہے کہ یہ شرط بہت اہم ہے۔ حد زنا پر نہیں بلکہ اس زنا پر ہے جسے چار یا زیادہ لوگوں نے دیکھا ہو یعنی کھلے عام بدکاری کی سزا ہوئی۔ یہ اس سے بھی ظاہر ہے کہ زنا کے جھوٹے الزام کی سزا ۸۰ کوڑے ہے۔ اگر میرا خیال صحیح ہے تو ڈی این اے ٹیسٹ کو حد کے لئے قبول نہیں کرنا چاہئے۔

چونکہ یہ معاملہ اولاد کی پیدائش سے شروع ہوا تھا تو آئیے دیکھتے ہیں کہ فقہاء حمل کو زنا کا ثبوت مانتے ہیں یا نہیں۔ لگتا ہے کہ ایک شادی شدہ عورت کے معاملے میں شک کا فائدہ عورت کو ملتا ہے اور عورت کی اولاد اس کے شوہر کی مانی جائے گی سوائے لعان کی صورت میں جس کا ذکر ہم بعد میں کریں گے۔ غیرشادی شدہ عورت کے معاملے میں حنفی، شافعی اور حنبلی فقہاء حمل کو زنا کی حد کے لئے ثبوت نہیں مانتے۔ مالکی فقہاء اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک چیز سامنے آئی کہ فقہاء نے عائلی قوانین (اور زنا) کے لئے حمل کی میعاد بھی مقرر کی ہے۔ جب فقہاء نے یہ میعاد چھ قمری ماہ سے لے کر پانچ قمری سال تک مقرر کی تھی تو سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی مگر آج بھی اس کو استعمال کیا جا رہا ہے جس کی کوئی تک نہیں بنتی۔

سوال ہی ہے کہ اگر شوہر کو یقین ہو کہ اولاد اس کی نہیں تو کیا کیا جائے۔ آپ شوہر کو چار گواہ لانے کو تو نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے قرآن نے لعان کا بندوبست کیا ہے۔ اس میں شوہر اور بیوی پانچ پانچ دفعہ قسم کھاتے ہیں کہ وہ سچے ہیں۔ اگر دونوں اپنی اپنی بات پر قائم رہیں تو ان میں علیحدگی ہو جاتی ہے اور جس بچے کی ولدیت سے شوہر منکر ہو وہ صرف ماں کے نام سے جانا جائے گا۔ میرے خیال سے یہ موجودہ واقعے کو سلجھانے کا ذریعہ ہے مگر ایک اہم فرق کے ساتھ: آج کے زمانے میں ہم شک کو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے یقین میں بدل سکتے ہیں۔ لہذا قسموں کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

میرے ذاتی خیال میں پاکستان کے حدود کے قوانین میں بہت خامیاں ہیں۔ اس لئے میں نہیں چاہتا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کو زنا کے ثبوت کے طور پر تسلیم کر کے پاکستان میں عورتوں کی زندگی مزید جہنم بنائی جائے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا سوال ہے حدود اور جدید زمانے میں ان کی افادیت کا۔ یہ ایک لمبی بحث ہے جس پر ہم پھر کبھی بات کریں گے۔

By Zack

Dad, gadget guy, bookworm, political animal, global nomad, cyclist, hiker, tennis player, photographer

3 comments

  1. حدود کا قانون پھر زیر بحث آ گیا۔ دراصل اس قانون میں داخل معاملات ہیں ہی بہت اہم اور نازک بھی۔ میں نے اپنی پوسٹ میں نفاز کی خامیوں کی نشان دہی کی تھی۔ میں نے کئی سال پہلے اس قانون پر کافی مغز کھپائی کی۔ خیال رہے کہ حدود کا قانون صرف زنا کے متعلق نہیں بلکہ اس میں چوری۔ قتل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ہمارے ہاں ہر چیز جلد بازی کا شکار ہو جاتی ہے۔ صحیح انصاف کے لئے ضروری ہے کہ صحیح طور پر تعلیم یافتہ علماء اور تجربہ کار اسلامی قدروں والے (لا دین نہیں) قانون دانوں کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو باقی سارے جیّد علماء ۔ قانون دانوں اور تفتیش کا اچھا تجربہ رکھنے والے افسروں سے سفارشات طلب کریں اور حسب ضرورت ان کے ساتھ تبادلہء خیال بھی کریں۔ پھر اس قانون میں مناسب تبدیلی کی جائے۔

    پرانے زمانے کے کچھ علماء کا نظریا مجھے اچھا لگا تھا کہ مقصد برائی کو ختم کرنا ہے۔ کسی پر ظلم کرنا یا کسی کو سر عام بدنام کرنا نہیں۔ زنا نہ صرف بہت بڑا جرم ہے بلکہ بہت بڑی بدنامی بھی ہے۔ اس لئے زنا ثابت کرنے کی شرط بہت کڑھی رکھی گئی ہے کہ بےگناہ عورتیں مردوں کے ظلم کا نشانہ نہ بنیں۔ ذرا آج کی دنیا پر نظر ڈالیں۔ امریکہ کے مغربی ساحل سے لے کر جاپان اور آسٹریلیا کے مشرقی کنارہ تک عورت کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہو رہا۔

  2. میری پوسٹ سے اگر یہ تاثر ملتا ہے کہ میں حدود کے نفاذ میں دلچسپی رکھتا ہوں تو یہ غلط ہے۔ یہ تمام قوانین ضیاءالحق نے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ایکسپلائٹ کرنے کے لیے نافذ کیے تھے۔ کیا اسلام سزاؤں سے شروع ہو کر ان پر ختم ہو جاتا ہے۔ ہم لوگوں کی نفاذ اسلام سے دلچسپی اس چیز سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہم سود پر مبنی نظام معیشت کو چھوڑنے پر تیار نہیں لیکن ہاتھ پیر کاٹنے اور سنگسار کرنے کے قانون فورا نافذ کر دیتے ہیں۔ میری پوسٹ کا محرک اصل میں اسی مقدمے سے متعلق ایک مولوی کا بیان تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ ڈی۔این۔اے ٹیسٹ میں تو غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مولانا کس طرح اس نتیجے پر پہنچے، اس کا معلوم نہیں۔ جہاں تک عورتوں کے بارے میں بحیثیت قوم ہمارے رویے کا تعلق ہے تو ہم ابھی تک زمانہ جاہلیت میں ہی جی رہے ہیں۔ اس موضوع پر میں پھر کبھی اپنے بلاگ پر لکھوں گا۔

  3. It is not good that Pakistan is facing all this humiliation on the world stage! Pakistan is not a terrorist supporting country! in the past few years,this should be evident to the leading world powers as Pakistan has been doing all in it’s power to demoralise terrorist activities but depite all the struggle in balochistan and even helping the US in exterminating terrorism in Afghanistan! other countries still see it as a corrupt nation! i think that the world nations should have a broader point of view about Pakistan and instead of looking at the negative side, they should look at the positive efforts of my country PAKISTAN.

Comments are closed.